السلام علیکم دوستو! کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ہماری زمین کا زیادہ تر حصہ سمندر ہے، اور یہ سمندر صرف پانی کا ذخیرہ نہیں بلکہ رازوں، خزانوں اور بے پناہ امکانات کا گہرا سمندر ہے؟ مجھے تو جب بھی گہرے نیلے پانیوں کے بارے میں خیال آتا ہے، ایک عجیب سی حیرت اور تجسس کا احساس ہوتا ہے۔ یہ سمندر، جو ہماری زندگی کی بنیاد ہیں، نہ صرف ہمیں سانس لینے کے لیے ہوا فراہم کرتے ہیں بلکہ خوراک، معدنیات اور توانائی جیسے انمول وسائل بھی دیتے ہیں۔آج کل تو ہر طرف سمندری وسائل کی ترقی کی بات ہو رہی ہے اور یہ کوئی عام بات نہیں، بلکہ ہماری آنے والی نسلوں کے روشن مستقبل کا ایک اہم حصہ ہے۔ میں نے خود اپنی تحقیق میں دیکھا ہے کہ دنیا بھر میں سائنسدان اور انجینئرز دن رات سمندر کی گہرائیوں سے توانائی حاصل کرنے کے نئے طریقے تلاش کر رہے ہیں۔ چاہے وہ لہروں سے بجلی بنانا ہو یا سمندر کے درجہ حرارت کے فرق کو استعمال کرنا ہو، یہ سب کچھ واقعی ناقابل یقین لگتا ہے۔ خاص طور پر، سکاٹ لینڈ میں تو دنیا کا سب سے بڑا لہروں سے توانائی حاصل کرنے والا فارم بھی بن چکا ہے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ خواب اب حقیقت بن رہا ہے۔لیکن یہ سب اتنا آسان بھی نہیں۔ سمندر سے فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ ہمیں اس کی حفاظت کا بھی خیال رکھنا ہے۔ کیونکہ بے تحاشا شکار اور آلودگی نے ہمارے سمندروں کو شدید خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ مجھے ہمیشہ یہ فکر رہتی ہے کہ اگر ہم نے اپنے سمندر کی قدر نہ کی تو یہ انمول خزانے ہم سے روٹھ جائیں گے۔ اچھی بات یہ ہے کہ اب دنیا بھر میں سمندروں کے تحفظ اور پائیدار استعمال پر زور دیا جا رہا ہے، اور چین جیسے ممالک ترقی پذیر ممالک کے ساتھ گہرے سمندر کی ٹیکنالوجیز بھی شیئر کر رہے ہیں تاکہ سب مل کر اس عظیم ورثے کو سنبھال سکیں۔یہ تمام باتیں میرے ذہن میں ہمیشہ چلتی رہتی ہیں کہ کیسے ہم ٹیکنالوجی اور ذمہ داری کو ساتھ لے کر سمندر سے بہترین فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ تو آئیے، اس دلچسپ موضوع پر مزید تفصیل سے بات کرتے ہیں۔ نیچے دیے گئے مضمون میں ہم سمندری وسائل کی ترقی کی ٹیکنالوجی کے بارے میں مزید گہرائی سے جانیں گے۔
سمندر کی گہرائیوں سے توانائی کا حصول: ایک نیا دور
دوستو، سچ کہوں تو جب میں نے پہلی بار سکاٹ لینڈ کے ساحلوں پر لہروں سے بجلی پیدا کرنے والے فارم کے بارے میں سنا تو مجھے یقین نہیں آیا۔ یہ محض کوئی سائنسی فکشن نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے جو ہمارے سامنے آ رہی ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ کیسے سمندر کی بے پناہ طاقت کو انسان اپنی ضرورتوں کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ سوچیں تو سہی، سمندر کی لہریں جو ہمیشہ ساحلوں سے ٹکراتی رہتی ہیں، ان میں کتنی توانائی چھپی ہوئی ہے! یہ وہ طاقت ہے جو ہمیں کبھی بھی ختم نہ ہونے والی بجلی دے سکتی ہے۔ لہروں اور سمندری دھاروں سے توانائی حاصل کرنا اب کوئی نیا تصور نہیں رہا، بلکہ دنیا کے کئی حصوں میں اس پر تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ ماحول دوست ہے اور فوسل فیول کے برعکس آلودگی کا باعث نہیں بنتی۔ مجھے ذاتی طور پر یہ چیز بہت متاثر کرتی ہے کہ کیسے فطرت کے عناصر کو سمجھ کر ہم انہیں اپنے فائدے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا سفر ہے جو انسانی ذہانت اور فطرت کے ساتھ ہم آہنگی کا بہترین نمونہ پیش کرتا ہے۔
لہروں اور دھاروں کی طاقت کا استعمال
میری رائے میں، سمندر کی لہروں اور دھاروں کو بجلی میں تبدیل کرنے کی ٹیکنالوجی ابھی ابتدائی مراحل میں ہے لیکن اس میں بہت زیادہ صلاحیت موجود ہے۔ دنیا بھر میں مختلف قسم کی مشینیں اور آلات تیار کیے جا رہے ہیں جو اس قدرتی توانائی کو حاصل کر سکیں۔ ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو لہروں کی اونچائی اور فریکوئنسی کا استعمال کرتے ہیں، جبکہ کچھ سمندری دھاروں کی رفتار کو ٹربائن گھمانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ تمام طریقے ایک ہی مقصد کے گرد گھومتے ہیں: سمندر کی مسلسل حرکت سے صاف توانائی حاصل کرنا۔ مثال کے طور پر، برطانیہ اور پرتگال میں ایسے منصوبے کامیابی سے چل رہے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ ٹیکنالوجی عملی طور پر کام کرتی ہے۔ اس سے نہ صرف بجلی کی کمی پوری ہو گی بلکہ ہم آب و ہوا کی تبدیلی کے چیلنجز کا بھی مقابلہ کر سکیں گے۔
سمندری درجہ حرارت کا فرق اور توانائی
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ سمندر کی سطح اور گہرائی کے درجہ حرارت کے فرق کو بھی توانائی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے؟ میں نے اس پر بہت تحقیق کی ہے اور یہ Ocean Thermal Energy Conversion (OTEC) کہلاتی ہے۔ یہ ایک بہت ہی دلچسپ تصور ہے جہاں سمندر کی گرم سطح کے پانی سے امونیا جیسے کم ابلنے والے مادے کو بخارات میں تبدیل کیا جاتا ہے، جو پھر ایک ٹربائن چلاتا ہے۔ اس کے بعد سمندر کی گہرائی سے ٹھنڈا پانی لا کر ان بخارات کو دوبارہ مائع میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ ٹیکنالوجی ابھی تک بڑے پیمانے پر لاگو نہیں کی گئی ہے، لیکن چھوٹے پائلٹ پروجیکٹس اس کی افادیت کو ثابت کر چکے ہیں۔ مجھے تو یہ سن کر ہی حیرت ہوتی ہے کہ ہماری زمین کتنے انوکھے طریقوں سے ہمیں توانائی فراہم کر سکتی ہے۔ یہ ایک مشکل کام ہے، مگر سائنسدان دن رات اس پر کام کر رہے ہیں اور مجھے امید ہے کہ مستقبل میں یہ بھی ایک اہم توانائی کا ذریعہ بنے گا۔
پانی کے اندر چھپی معدنی دولت: مستقبل کی کان کنی
جب بھی میں سمندر کے بارے میں سوچتا ہوں، میرے ذہن میں صرف پانی اور مچھلیاں نہیں آتیں، بلکہ اس کی گہرائیوں میں چھپے انمول خزانے بھی آتے ہیں۔ یہ صرف کہانیاں نہیں، حقیقت ہے کہ سمندر کی تہہ میں تانبے، سونے، چاندی، نکل اور کوبالٹ جیسے قیمتی معدنیات کے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ مجھے یاد ہے ایک بار میں نے ایک دستاویزی فلم دیکھی تھی جس میں سمندر کی تہہ سے ان معدنیات کو نکالنے کے جدید طریقوں کو دکھایا گیا تھا، اور میں واقعی حیران رہ گیا کہ انسان نے کہاں تک ترقی کر لی ہے۔ زمینی ذخائر کے تیزی سے ختم ہونے کے پیش نظر، سمندر ان معدنیات کی اگلی بڑی سرحد بنتا جا رہا ہے۔ یہ نہ صرف ہماری معیشت کو سہارا دے سکتا ہے بلکہ ٹیکنالوجی کی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کر سکتا ہے، کیونکہ جدید الیکٹرانکس اور بیٹریاں ان ہی معدنیات کے بغیر ممکن نہیں۔
گہرے سمندر سے معدنیات کا اخراج: چیلنجز اور حل
گہرے سمندر سے معدنیات نکالنا کوئی آسان کام نہیں۔ یہ بہت مہنگا، تکنیکی طور پر پیچیدہ اور ماحولیاتی طور پر حساس عمل ہے۔ میرے مشاہدے میں آیا ہے کہ اس کے لیے خصوصی روبوٹس، زیر آب ڈرلنگ مشینیں اور ریموٹ کنٹرولڈ گاڑیاں استعمال ہوتی ہیں جو کئی ہزار میٹر گہرائی میں کام کرتی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ، مجھے ہمیشہ یہ فکر رہتی ہے کہ اس عمل سے سمندری ماحولیاتی نظام کو کتنا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر اس پر سخت قوانین اور ضابطے بنائے جا رہے ہیں تاکہ پائیدار طریقے سے ان وسائل کو استعمال کیا جا سکے۔ سائنسدان مسلسل ایسے طریقے تلاش کر رہے ہیں جو کم سے کم ماحولیاتی اثرات مرتب کریں۔ میری ذاتی رائے ہے کہ ہمیں ٹیکنالوجی اور ماحولیاتی تحفظ کے درمیان توازن قائم کرنا ہو گا تاکہ ہم آج کی ضروریات پوری کر سکیں اور مستقبل کے لیے بھی سمندر کو محفوظ رکھ سکیں۔
میٹل نوڈولز اور ہائیڈرو تھرمل وینٹس
آپ نے شاید میٹل نوڈولز (Metallic Nodules) کا نام سنا ہو، یہ آلو کی شکل کے چھوٹے پتھر ہوتے ہیں جو سمندر کی تہہ میں بکھرے ہوتے ہیں اور ان میں مینگنیز، نکل، کوبالٹ اور تانبا جیسی دھاتیں پائی جاتی ہیں۔ اسی طرح، ہائیڈرو تھرمل وینٹس (Hydrothermal Vents) وہ جگہیں ہیں جہاں سمندر کی تہہ سے گرم پانی پھوٹتا ہے اور اس کے ساتھ ہی قیمتی معدنیات بھی باہر آتی ہیں۔ میں نے ان دونوں کے بارے میں بہت پڑھا ہے، اور یہ دونوں ہی مستقبل کی کان کنی کے اہم اہداف ہیں۔ ان جگہوں پر پائے جانے والے معدنیات کے ذخائر ہماری صنعتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بہت اہم ثابت ہو سکتے ہیں۔ چین، جاپان اور جنوبی کوریا جیسے ممالک ان ذخائر کی تلاش اور ان کے اخراج کی ٹیکنالوجی پر بہت زیادہ سرمایہ کاری کر رہے ہیں، اور یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ سمندری معدنیات کا مستقبل کتنا روشن ہے۔
سمندری غذا کی پائیدار پیداوار: ہماری پلیٹ میں سمندر
میں ہمیشہ سوچتا تھا کہ سمندر سے ملنے والی مچھلی اور دیگر سمندری غذا کبھی ختم نہیں ہو سکتی، لیکن میرے ریسرچ نے مجھے حقیقت سے آشنا کیا۔ دنیا بھر میں مچھلیوں کے بے تحاشا شکار نے سمندری حیات کو شدید خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر یہ چیز پریشان کرتی ہے کہ کیسے ہم اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے وسائل کو تباہ کر رہے ہیں۔ لیکن اب اچھی خبر یہ ہے کہ پائیدار ماہی گیری اور آبی زراعت (Aquaculture) کے ذریعے ہم اس چیلنج کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا طریقہ ہے جس میں مچھلیوں اور دیگر سمندری جانوروں کو کنٹرول شدہ ماحول میں پالا جاتا ہے تاکہ جنگلی آبادی پر دباؤ کم ہو اور ہم سب کو صحت مند اور محفوظ سمندری غذا ملتی رہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ کیسے جدید فش فارمز میں ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے مچھلیوں کی افزائش کی جاتی ہے، اور یہ واقعی ایک امید افزا صورتحال ہے۔
آبی زراعت کی جدید ٹیکنالوجیز
آبی زراعت اب صرف تالابوں میں مچھلی پالنے تک محدود نہیں رہی۔ اب انڈور فش فارمنگ، ریسارکیولیٹنگ ایکواکلچر سسٹمز (RAS) اور آف شور ایکواکلچر جیسے جدید طریقے اپنائے جا رہے ہیں۔ میرے ایک دوست نے بتایا کہ ان طریقوں سے پانی کا کم استعمال ہوتا ہے اور بیماریوں کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے، جس سے زیادہ محفوظ اور معیاری سمندری غذا تیار کی جا سکتی ہے۔ RAS سسٹم میں تو پانی کو مسلسل فلٹر کیا جاتا ہے اور دوبارہ استعمال کیا جاتا ہے، جو پانی کی بچت کے لحاظ سے بہت ہی شاندار ہے۔ اس طرح کی ٹیکنالوجیز نہ صرف ماحولیاتی بوجھ کو کم کرتی ہیں بلکہ خوراک کی عالمی ضروریات کو پورا کرنے میں بھی مدد دیتی ہیں۔ مجھے تو یہ سن کر ہی خوشی ہوتی ہے کہ ہم نے فطرت کو نقصان پہنچائے بغیر اپنی ضروریات پوری کرنے کے طریقے ڈھونڈ لیے ہیں۔
سمندری غذا کی حفاظت اور ٹریس ایبلٹی
جب بھی میں مارکیٹ سے مچھلی خریدتا ہوں، میرے ذہن میں ایک سوال آتا ہے کہ یہ کہاں سے آئی ہے اور کیا یہ پائیدار طریقے سے پکڑی گئی ہے؟ اب جدید ٹیکنالوجی کی بدولت، ہم سمندری غذا کی ٹریس ایبلٹی (Traceability) کو یقینی بنا سکتے ہیں۔ بلاک چین جیسی ٹیکنالوجیز کا استعمال کرتے ہوئے، ہم یہ جان سکتے ہیں کہ مچھلی کس کشتی نے، کہاں اور کب پکڑی، اور کیسے اسے ہمارے تک پہنچایا گیا۔ یہ چیز صارفین کو اعتماد فراہم کرتی ہے اور غیر قانونی ماہی گیری کو روکنے میں بھی مدد دیتی ہے۔ میری نظر میں، یہ نہ صرف شفافیت کو فروغ دیتا ہے بلکہ ہمیں اپنے وسائل کی حفاظت کے لیے زیادہ ذمہ دار بھی بناتا ہے۔ یہ سب کچھ ہمارے سمندروں کے صحت مند مستقبل کے لیے بہت اہم ہے۔
جدید ٹیکنالوجی اور سمندری تحقیق: رازوں کی نقاب کشائی
سمندر کتنا پراسرار ہے، ہے نا؟ مجھے ہمیشہ سے سمندر کی گہرائیوں میں چھپے رازوں کو جاننے کی خواہش رہی ہے۔ اور مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ آج کی جدید ٹیکنالوجیز کی بدولت ہم ان رازوں کو بے نقاب کر رہے ہیں۔ بغیر پائلٹ کے زیر آب گاڑیاں (AUVs)، ریموٹ آپریٹڈ گاڑیاں (ROVs) اور سیٹلائٹ ٹیکنالوجی جیسی چیزوں نے سمندری تحقیق کے میدان میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ مجھے یاد ہے جب میں نے پہلی بار ایک ROV کو سمندر کی تہہ میں کام کرتے دیکھا تو میں حیران رہ گیا کہ انسان کس قدر ترقی کر چکا ہے۔ یہ مشینیں ان جگہوں تک پہنچ سکتی ہیں جہاں انسان کا جانا ممکن نہیں، اور وہاں سے ڈیٹا اکٹھا کرتی ہیں جو ہمارے سیارے کے بارے میں ہماری سمجھ کو بڑھاتا ہے۔
زیر آب روبوٹس اور ڈیٹا اکٹھا کرنا
یہ زیر آب روبوٹس نہ صرف سمندر کی گہرائیوں کی تصاویر اور ویڈیوز لیتے ہیں بلکہ درجہ حرارت، نمکیات اور سمندری حیات کے بارے میں بھی قیمتی معلومات اکٹھا کرتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک طرح سے سمندر کی اپنی آنکھیں اور کان ہیں۔ ان روبوٹس کی مدد سے سائنسدان سمندری ماحولیاتی نظام کی صحت کا اندازہ لگا سکتے ہیں، آبی آلودگی کا پتہ لگا سکتے ہیں اور سمندر کے اندر ہونے والی تبدیلیوں کو سمجھ سکتے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی سمندری طوفانوں کی پیش گوئی، سونامی کی وارننگ اور سمندری وسائل کی تلاش میں بھی بہت مفید ثابت ہو رہی ہے۔ میں خود اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ جتنا زیادہ ہم سمندر کو جانیں گے، اتنا ہی بہتر طریقے سے ہم اس کی حفاظت کر سکیں گے۔
سیٹلائٹ اور ریموٹ سینسنگ
زمین پر بیٹھے ہوئے بھی ہم سمندر کی وسیع و عریض وسعتوں کا مشاہدہ کر سکتے ہیں، اور یہ سب سیٹلائٹ اور ریموٹ سینسنگ ٹیکنالوجی کی بدولت ممکن ہے۔ مجھے یہ جان کر ہمیشہ حیرت ہوتی ہے کہ کیسے سیٹلائٹ سمندر کی سطح کے درجہ حرارت، رنگ، لہروں کی اونچائی اور سمندری برف کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں۔ یہ ڈیٹا سائنسدانوں کو سمندر میں ہونے والی بڑی تبدیلیوں، جیسے کہ ال نینو (El Niño) یا سمندری آلودگی کے پھیلاؤ کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ یہ خاص طور پر اس بات کا پتہ لگانے میں مددگار ہے کہ ماہی گیری کی کشتیوں کا کہاں زیادہ ہجوم ہے، یا تیل کا رساؤ کہاں ہوا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی ہمیں ایک وسیع تناظر فراہم کرتی ہے جو زمینی مشاہدات سے ممکن نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا ٹول ہے جو ہمارے سیارے کے صحت مند مستقبل کے لیے ناگزیر ہے۔
سمندری آلودگی کا مقابلہ: صاف سمندر، روشن مستقبل
جب بھی میں ساحل پر جاتا ہوں اور پلاسٹک کی بوتلیں یا کچرا سمندر میں تیرتا دیکھتا ہوں، میرا دل بہت دکھتا ہے۔ مجھے یہ سوچ کر بہت تکلیف ہوتی ہے کہ ہم اپنے ہی ہاتھوں سے اس خوبصورت ماحولیاتی نظام کو کتنا نقصان پہنچا رہے ہیں۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ اب جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ہم سمندری آلودگی کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ سچ کہوں تو، مجھے یہ دیکھ کر بہت امید ملتی ہے کہ دنیا بھر میں لوگ اور تنظیمیں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کمر بستہ ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ہم سب مل کر کوشش کریں تو ہم اپنے سمندروں کو صاف ستھرا رکھ سکتے ہیں اور آنے والی نسلوں کے لیے انہیں محفوظ بنا سکتے ہیں۔
پلاسٹک کی صفائی اور بایوڈیگریڈیبل مواد
سمندر میں پلاسٹک کی آلودگی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ پلاسٹک سینکڑوں سال تک سمندر میں رہتا ہے اور سمندری حیات کو شدید نقصان پہنچاتا ہے۔ میرے علم میں آیا ہے کہ اب ایسے جدید آلات اور روبوٹس بنائے گئے ہیں جو سمندر سے پلاسٹک کچرا اکٹھا کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، بایوڈیگریڈیبل (Biodegradable) پلاسٹک اور دیگر مواد کی تیاری پر بھی بہت زیادہ زور دیا جا رہا ہے جو قدرتی طور پر تحلیل ہو جاتے ہیں اور ماحول کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ دونوں ہی حل بہت اہم ہیں؛ ایک طرف ہم موجودہ کچرے کو صاف کر رہے ہیں اور دوسری طرف مستقبل میں مزید کچرا پیدا ہونے سے روک رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا کام ہے جس کی کامیابی ہم سب کی کوششوں پر منحصر ہے۔
تیل کے رساؤ کی نگرانی اور صفائی
تیل کا رساؤ سمندری ماحولیاتی نظام کے لیے ایک تباہ کن چیز ہے۔ مجھے ہمیشہ ان حادثات کی خبریں پڑھ کر تشویش ہوتی ہے جہاں لاکھوں گیلن تیل سمندر میں بہہ جاتا ہے۔ لیکن اب سیٹلائٹ اور ڈرونز کی مدد سے تیل کے رساؤ کی فوری نگرانی کی جا سکتی ہے اور اس کے پھیلاؤ کو روکا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، تیل کی صفائی کے لیے بھی نئی ٹیکنالوجیز، جیسے کہ تیل کو جذب کرنے والے مواد (Sorbents) اور تیل کو توڑنے والے بیکٹیریا (Bioremediation) کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ طریقے ماحولیاتی نقصان کو کم کرنے میں بہت مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ جتنی جلدی ہم ایسے حادثات پر قابو پائیں گے، اتنا ہی سمندر کو ہونے والے نقصان سے بچا سکیں گے۔
بلو اکانومی: سمندر سے معاشی انقلاب
کیا آپ نے کبھی بلو اکانومی (Blue Economy) کے بارے میں سنا ہے؟ مجھے یہ تصور بہت پسند ہے کیونکہ یہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہم سمندر سے صرف وسائل ہی نہیں نکالتے بلکہ اسے اپنی معیشت کا ایک پائیدار حصہ بھی بنا سکتے ہیں۔ میری نظر میں، بلو اکانومی کا مطلب ہے سمندری وسائل کا ذمہ دارانہ استعمال کرتے ہوئے معاشی ترقی حاصل کرنا۔ اس میں ماہی گیری، آبی زراعت، سمندری سیاحت، بندرگاہیں، جہاز رانی، سمندری توانائی اور سمندری تحقیق شامل ہیں۔ یہ سب کچھ اس طرح سے کرنا ہے کہ سمندر کا ماحول بھی محفوظ رہے اور ہماری آنے والی نسلیں بھی ان وسائل سے فائدہ اٹھا سکیں۔
بلو اکانومی کے اہم شعبے اور ان کا مستقبل
بلو اکانومی میں کئی شعبے شامل ہیں جو پاکستان جیسے ممالک کے لیے بھی بہت اہم ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، سمندری سیاحت جو ساحلی علاقوں میں روزگار کے مواقع پیدا کرتی ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ دنیا بھر میں ساحلی سیاحت کتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اس سے مقامی معیشت کو کتنا فائدہ ہوتا ہے۔ اسی طرح، پائیدار ماہی گیری اور آبی زراعت بھی خوراک کی حفاظت اور برآمدات کو بڑھا سکتی ہے۔ سمندری توانائی کے منصوبے ہمیں صاف بجلی فراہم کر سکتے ہیں۔ یہ تمام شعبے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کی ترقی سمندری وسائل پر ہماری انحصار کو ایک پائیدار شکل دیتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ مستقبل میں بلو اکانومی مزید اہمیت اختیار کرے گی۔
پائیدار ترقی کے اہداف اور سمندر
اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف (Sustainable Development Goals) میں بھی سمندری وسائل کی حفاظت کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ دنیا بھر میں اس پر سنجیدگی سے کام ہو رہا ہے۔ سمندروں کی آلودگی کو کم کرنا، ماہی گیری کے پائیدار طریقوں کو فروغ دینا، اور سمندری ماحولیاتی نظام کو محفوظ رکھنا ان اہداف میں شامل ہے۔ یہ تمام اہداف سمندری وسائل کی ترقی کی ٹیکنالوجی کے ساتھ گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ اگر ہم ان اہداف کو حاصل کر لیں تو نہ صرف سمندر بلکہ پورا سیارہ ایک بہتر جگہ بن جائے گا۔ یہ ایک اجتماعی کوشش ہے جس میں ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہے۔
سمندری پانی کا میٹھا کرنا: پینے کے پانی کا حل
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ہماری زمین کا 70 فیصد حصہ پانی ہے لیکن پینے کا صاف پانی صرف ایک چھوٹا سا فیصد ہے؟ مجھے تو یہ سوچ کر ہی حیرت ہوتی ہے کہ سمندر کا اتنا سارا پانی ہمارے سامنے ہے لیکن ہم اسے پی نہیں سکتے۔ لیکن اب جدید ٹیکنالوجیز کی بدولت ہم سمندری پانی کو میٹھا کر سکتے ہیں اور اسے پینے کے قابل بنا سکتے ہیں۔ یہ خاص طور پر ان علاقوں کے لیے ایک بہت بڑا حل ہے جہاں پینے کے پانی کی شدید کمی ہے۔ مجھے یاد ہے جب میں نے ایک بار مشرق وسطیٰ کے ایک ملک میں میٹھے پانی کے پلانٹ کا دورہ کیا تھا، اور یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ سمندری پانی کو کس طرح فلٹر اور صاف کر کے پینے کے قابل بنایا جا رہا تھا۔
ریورس اوسموسس (Reverse Osmosis) ٹیکنالوجی
سمندری پانی کو میٹھا کرنے کی سب سے عام اور موثر ٹیکنالوجی ریورس اوسموسس (RO) ہے۔ میں نے اس ٹیکنالوجی پر بہت تحقیق کی ہے۔ اس میں سمندری پانی کو بہت زیادہ دباؤ کے ساتھ ایک نیم پارگمی جھلی (Semi-permeable Membrane) سے گزارا جاتا ہے جو نمکیات اور دیگر آلودگیوں کو روک لیتی ہے اور صاف پانی کو گزرنے دیتی ہے۔ یہ طریقہ کار بہت موثر ہے اور دنیا بھر کے کئی ممالک میں کامیابی سے استعمال ہو رہا ہے۔ اگرچہ یہ ایک توانائی طلب عمل ہے، لیکن شمسی توانائی جیسی قابل تجدید توانائی کے ذرائع کے استعمال سے اس کے اخراجات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ میری نظر میں، یہ ٹیکنالوجی مستقبل میں پینے کے پانی کی عالمی ضروریات کو پورا کرنے میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔
ڈیسیلینیشن کے ماحول دوست حل
مجھے ہمیشہ اس بات کی فکر رہتی ہے کہ ڈیسیلینیشن پلانٹس سے نکلنے والا نمکین پانی سمندری ماحول کو کیسے متاثر کرتا ہے۔ خوش قسمتی سے، اب سائنسدان ایسے ماحول دوست حل تلاش کر رہے ہیں جو اس مسئلے کو حل کر سکیں۔ ان میں زیرو لیکویڈ ڈسچارج (ZLD) سسٹمز اور نمکین پانی کو دوبارہ استعمال کرنے کے طریقے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، قابل تجدید توانائی کا استعمال ڈیسیلینیشن پلانٹس کو چلانے کے لیے ایک بہترین آپشن ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم تکنیکی ترقی کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی ذمہ داری کا بھی خیال رکھ سکتے ہیں اور رکھنا بھی چاہیے۔ اس طرح، ہم نہ صرف پینے کے پانی کا مسئلہ حل کر سکیں گے بلکہ اپنے سمندری ماحول کو بھی محفوظ رکھ پائیں گے۔
| ٹیکنالوجی کا شعبہ | اہم استعمال | اہمیت |
|---|---|---|
| سمندری توانائی | لہروں، دھاروں، درجہ حرارت کے فرق سے بجلی کی پیداوار | صاف اور پائیدار توانائی کا ذریعہ |
| گہرے سمندر کی کان کنی | قیمتی معدنیات (تانبا، نکل، کوبالٹ) کا اخراج | زمینی ذخائر کے متبادل، صنعتی ضروریات کی تکمیل |
| آبی زراعت | مچھلی، جھینگے اور سمندری سبزیوں کی پائیدار افزائش | خوراک کی حفاظت، جنگلی آبادی پر دباؤ میں کمی |
| سمندری روبوٹکس | زیر آب تحقیق، ڈیٹا اکٹھا کرنا، آلودگی کی نگرانی | سمندری رازوں کو بے نقاب کرنا، ماحولیاتی نگرانی |
| ڈیسیلینیشن | سمندری پانی کو پینے کے قابل بنانا | پینے کے پانی کی کمی کا حل، خشک علاقوں کے لیے اہم |
بلو ٹیکنالوجی: سمندر کا دفاع اور حفاظت
میں ہمیشہ سوچتا تھا کہ سمندر صرف وسائل کا ایک ذریعہ ہے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مجھے احساس ہوا کہ یہ ہماری بقا کے لیے کتنا اہم ہے۔ اب “بلو ٹیکنالوجی” کا تصور تیزی سے ابھر رہا ہے، جس میں ہم نہ صرف سمندر سے فائدہ اٹھاتے ہیں بلکہ اس کی حفاظت کے لیے بھی جدید طریقے استعمال کرتے ہیں۔ مجھے یہ چیز بہت متاثر کرتی ہے کہ کیسے سائنس اور ٹیکنالوجی کو ماحولیاتی تحفظ کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جو سمندر کے ماحول کو بہتر بنانے، آلودگی سے بچانے اور سمندری حیات کو محفوظ رکھنے پر توجہ دیتا ہے۔
سمندری ماحولیاتی نظام کی بحالی
دنیا بھر میں سمندری ماحولیاتی نظام، جیسے کہ مرجان کی چٹانیں (Coral Reefs) اور مینگرووز (Mangroves)، شدید خطرات سے دوچار ہیں۔ میرے علم میں آیا ہے کہ بلو ٹیکنالوجی ان ماحولیاتی نظاموں کی بحالی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ مثال کے طور پر، مصنوعی چٹانیں بنانا یا مینگرووز کے پودے لگانا۔ مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ سائنسدان جینیاتی انجینئرنگ کا استعمال کرتے ہوئے ایسی مرجان کی اقسام تیار کر رہے ہیں جو ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف زیادہ مزاحمت رکھتی ہیں۔ یہ کوششیں نہ صرف سمندری حیات کو تحفظ فراہم کرتی ہیں بلکہ ساحلی علاقوں کو سمندری طوفانوں اور کٹاؤ سے بھی بچاتی ہیں۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جس کے نتائج دیکھ کر مجھے حقیقی خوشی محسوس ہوتی ہے۔
سمندری نگرانی اور تحفظ کے اوزار
سمندر کی حفاظت کے لیے جدید نگرانی کے اوزار بہت ضروری ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ کس طرح سیٹلائٹ، ڈرونز اور زیر آب سینسرز سمندر میں ہونے والی غیر قانونی سرگرمیوں، جیسے کہ غیر قانونی ماہی گیری یا آلودگی پھیلانے والوں کا پتہ لگاتے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجیز حکام کو فوری کارروائی کرنے میں مدد دیتی ہیں اور سمندری قوانین کو نافذ کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر یہ چیز بہت تسلی بخش لگتی ہے کہ اب ٹیکنالوجی کی مدد سے ہم اپنے سمندروں کو ان لوگوں سے بچا سکتے ہیں جو انہیں نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ یہ ایک ایسا دفاعی نظام ہے جو ہمارے سمندری ورثے کو محفوظ رکھنے کے لیے ناگزیر ہے۔
سمندر کی گہرائیوں سے توانائی کا حصول: ایک نیا دور
دوستو، سچ کہوں تو جب میں نے پہلی بار سکاٹ لینڈ کے ساحلوں پر لہروں سے بجلی پیدا کرنے والے فارم کے بارے میں سنا تو مجھے یقین نہیں آیا۔ یہ محض کوئی سائنسی فکشن نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے جو ہمارے سامنے آ رہی ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ کیسے سمندر کی بے پناہ طاقت کو انسان اپنی ضرورتوں کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ سوچیں تو سہی، سمندر کی لہریں جو ہمیشہ ساحلوں سے ٹکراتی رہتی ہیں، ان میں کتنی توانائی چھپی ہوئی ہے! یہ وہ طاقت ہے جو ہمیں کبھی بھی ختم نہ ہونے والی بجلی دے سکتی ہے۔ لہروں اور سمندری دھاروں سے توانائی حاصل کرنا اب کوئی نیا تصور نہیں رہا، بلکہ دنیا کے کئی حصوں میں اس پر تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ ماحول دوست ہے اور فوسل فیول کے برعکس آلودگی کا باعث نہیں بنتی۔ مجھے ذاتی طور پر یہ چیز بہت متاثر کرتی ہے کہ کیسے فطرت کے عناصر کو سمجھ کر ہم انہیں اپنے فائدے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا سفر ہے جو انسانی ذہانت اور فطرت کے ساتھ ہم آہنگی کا بہترین نمونہ پیش کرتا ہے۔
لہروں اور دھاروں کی طاقت کا استعمال
میری رائے میں، سمندر کی لہروں اور دھاروں کو بجلی میں تبدیل کرنے کی ٹیکنالوجی ابھی ابتدائی مراحل میں ہے لیکن اس میں بہت زیادہ صلاحیت موجود ہے۔ دنیا بھر میں مختلف قسم کی مشینیں اور آلات تیار کیے جا رہے ہیں جو اس قدرتی توانائی کو حاصل کر سکیں۔ ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو لہروں کی اونچائی اور فریکوئنسی کا استعمال کرتے ہیں، جبکہ کچھ سمندری دھاروں کی رفتار کو ٹربائن گھمانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ تمام طریقے ایک ہی مقصد کے گرد گھومتے ہیں: سمندر کی مسلسل حرکت سے صاف توانائی حاصل کرنا۔ مثال کے طور پر، برطانیہ اور پرتگال میں ایسے منصوبے کامیابی سے چل رہے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ ٹیکنالوجی عملی طور پر کام کرتی ہے۔ اس سے نہ صرف بجلی کی کمی پوری ہو گی بلکہ ہم آب و ہوا کی تبدیلی کے چیلنجز کا بھی مقابلہ کر سکیں گے۔
سمندری درجہ حرارت کا فرق اور توانائی
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ سمندر کی سطح اور گہرائی کے درجہ حرارت کے فرق کو بھی توانائی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے؟ میں نے اس پر بہت تحقیق کی ہے اور یہ Ocean Thermal Energy Conversion (OTEC) کہلاتی ہے۔ یہ ایک بہت ہی دلچسپ تصور ہے جہاں سمندر کی گرم سطح کے پانی سے امونیا جیسے کم ابلنے والے مادے کو بخارات میں تبدیل کیا جاتا، جو پھر ایک ٹربائن چلاتا ہے۔ اس کے بعد سمندر کی گہرائی سے ٹھنڈا پانی لا کر ان بخارات کو دوبارہ مائع میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ ٹیکنالوجی ابھی تک بڑے پیمانے پر لاگو نہیں کی گئی ہے، لیکن چھوٹے پائلٹ پروجیکٹس اس کی افادیت کو ثابت کر چکے ہیں۔ مجھے تو یہ سن کر ہی حیرت ہوتی ہے کہ ہماری زمین کتنے انوکھے طریقوں سے ہمیں توانائی فراہم کر سکتی ہے۔ یہ ایک مشکل کام ہے، مگر سائنسدان دن رات اس پر کام کر رہے ہیں اور مجھے امید ہے کہ مستقبل میں یہ بھی ایک اہم توانائی کا ذریعہ بنے گا۔
پانی کے اندر چھپی معدنی دولت: مستقبل کی کان کنی
جب بھی میں سمندر کے بارے میں سوچتا ہوں، میرے ذہن میں صرف پانی اور مچھلیاں نہیں آتیں، بلکہ اس کی گہرائیوں میں چھپے انمول خزانے بھی آتے ہیں۔ یہ صرف کہانیاں نہیں، حقیقت ہے کہ سمندر کی تہہ میں تانبے، سونے، چاندی، نکل اور کوبالٹ جیسے قیمتی معدنیات کے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ مجھے یاد ہے ایک بار میں نے ایک دستاویزی فلم دیکھی تھی جس میں سمندر کی تہہ سے ان معدنیات کو نکالنے کے جدید طریقوں کو دکھایا گیا تھا، اور میں واقعی حیران رہ گیا کہ انسان نے کہاں تک ترقی کر لی ہے۔ زمینی ذخائر کے تیزی سے ختم ہونے کے پیش نظر، سمندر ان معدنیات کی اگلی بڑی سرحد بنتا جا رہا ہے۔ یہ نہ صرف ہماری معیشت کو سہارا دے سکتا ہے بلکہ ٹیکنالوجی کی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کر سکتا ہے، کیونکہ جدید الیکٹرانکس اور بیٹریاں ان ہی معدنیات کے بغیر ممکن نہیں۔
گہرے سمندر سے معدنیات کا اخراج: چیلنجز اور حل
گہرے سمندر سے معدنیات نکالنا کوئی آسان کام نہیں۔ یہ بہت مہنگا، تکنیکی طور پر پیچیدہ اور ماحولیاتی طور پر حساس عمل ہے۔ میرے مشاہدے میں آیا ہے کہ اس کے لیے خصوصی روبوٹس، زیر آب ڈرلنگ مشینیں اور ریموٹ کنٹرولڈ گاڑیاں استعمال ہوتی ہیں جو کئی ہزار میٹر گہرائی میں کام کرتی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ، مجھے ہمیشہ یہ فکر رہتی ہے کہ اس عمل سے سمندری ماحولیاتی نظام کو کتنا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر اس پر سخت قوانین اور ضابطے بنائے جا رہے ہیں تاکہ پائیدار طریقے سے ان وسائل کو استعمال کیا جا سکے۔ سائنسدان مسلسل ایسے طریقے تلاش کر رہے ہیں جو کم سے کم ماحولیاتی اثرات مرتب کریں۔ میری ذاتی رائے ہے کہ ہمیں ٹیکنالوجی اور ماحولیاتی تحفظ کے درمیان توازن قائم کرنا ہو گا تاکہ ہم آج کی ضروریات پوری کر سکیں اور مستقبل کے لیے بھی سمندر کو محفوظ رکھ سکیں۔
میٹل نوڈولز اور ہائیڈرو تھرمل وینٹس
آپ نے شاید میٹل نوڈولز (Metallic Nodules) کا نام سنا ہو، یہ آلو کی شکل کے چھوٹے پتھر ہوتے ہیں جو سمندر کی تہہ میں بکھرے ہوتے ہیں اور ان میں مینگنیز، نکل، کوبالٹ اور تانبا جیسی دھاتیں پائی جاتی ہیں۔ اسی طرح، ہائیڈرو تھرمل وینٹس (Hydrothermal Vents) وہ جگہیں ہیں جہاں سمندر کی تہہ سے گرم پانی پھوٹتا ہے اور اس کے ساتھ ہی قیمتی معدنیات بھی باہر آتی ہیں۔ میں نے ان دونوں کے بارے میں بہت پڑھا ہے، اور یہ دونوں ہی مستقبل کی کان کنی کے اہم اہداف ہیں۔ ان جگہوں پر پائے جانے والے معدنیات کے ذخائر ہماری صنعتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بہت اہم ثابت ہو سکتے ہیں۔ چین، جاپان اور جنوبی کوریا جیسے ممالک ان ذخائر کی تلاش اور ان کے اخراج کی ٹیکنالوجی پر بہت زیادہ سرمایہ کاری کر رہے ہیں، اور یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ سمندری معدنیات کا مستقبل کتنا روشن ہے۔

سمندری غذا کی پائیدار پیداوار: ہماری پلیٹ میں سمندر
میں ہمیشہ سوچتا تھا کہ سمندر سے ملنے والی مچھلی اور دیگر سمندری غذا کبھی ختم نہیں ہو سکتی، لیکن میرے ریسرچ نے مجھے حقیقت سے آشنا کیا۔ دنیا بھر میں مچھلیوں کے بے تحاشا شکار نے سمندری حیات کو شدید خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر یہ چیز پریشان کرتی ہے کہ کیسے ہم اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے وسائل کو تباہ کر رہے ہیں۔ لیکن اب اچھی خبر یہ ہے کہ پائیدار ماہی گیری اور آبی زراعت (Aquaculture) کے ذریعے ہم اس چیلنج کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا طریقہ ہے جس میں مچھلیوں اور دیگر سمندری جانوروں کو کنٹرول شدہ ماحول میں پالا جاتا ہے تاکہ جنگلی آبادی پر دباؤ کم ہو اور ہم سب کو صحت مند اور محفوظ سمندری غذا ملتی رہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ کیسے جدید فش فارمز میں ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے مچھلیوں کی افزائش کی جاتی ہے، اور یہ واقعی ایک امید افزا صورتحال ہے۔
آبی زراعت کی جدید ٹیکنالوجیز
آبی زراعت اب صرف تالابوں میں مچھلی پالنے تک محدود نہیں رہی۔ اب انڈور فش فارمنگ، ریسارکیولیٹنگ ایکواکلچر سسٹمز (RAS) اور آف شور ایکواکلچر جیسے جدید طریقے اپنائے جا رہے ہیں۔ میرے ایک دوست نے بتایا کہ ان طریقوں سے پانی کا کم استعمال ہوتا ہے اور بیماریوں کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے، جس سے زیادہ محفوظ اور معیاری سمندری غذا تیار کی جا سکتی ہے۔ RAS سسٹم میں تو پانی کو مسلسل فلٹر کیا جاتا ہے اور دوبارہ استعمال کیا جاتا ہے، جو پانی کی بچت کے لحاظ سے بہت ہی شاندار ہے۔ اس طرح کی ٹیکنالوجیز نہ صرف ماحولیاتی بوجھ کو کم کرتی ہیں بلکہ خوراک کی عالمی ضروریات کو پورا کرنے میں بھی مدد دیتی ہیں۔ مجھے تو یہ سن کر ہی خوشی ہوتی ہے کہ ہم نے فطرت کو نقصان پہنچائے بغیر اپنی ضروریات پوری کرنے کے طریقے ڈھونڈ لیے ہیں۔
سمندری غذا کی حفاظت اور ٹریس ایبلٹی
جب بھی میں مارکیٹ سے مچھلی خریدتا ہوں، میرے ذہن میں ایک سوال آتا ہے کہ یہ کہاں سے آئی ہے اور کیا یہ پائیدار طریقے سے پکڑی گئی ہے؟ اب جدید ٹیکنالوجی کی بدولت، ہم سمندری غذا کی ٹریس ایبلٹی (Traceability) کو یقینی بنا سکتے ہیں۔ بلاک چین جیسی ٹیکنالوجیز کا استعمال کرتے ہوئے، ہم یہ جان سکتے ہیں کہ مچھلی کس کشتی نے، کہاں اور کب پکڑی، اور کیسے اسے ہمارے تک پہنچایا گیا۔ یہ چیز صارفین کو اعتماد فراہم کرتی ہے اور غیر قانونی ماہی گیری کو روکنے میں بھی مدد دیتی ہے۔ میری نظر میں، یہ نہ صرف شفافیت کو فروغ دیتا ہے بلکہ ہمیں اپنے وسائل کی حفاظت کے لیے زیادہ ذمہ دار بھی بناتا ہے۔ یہ سب کچھ ہمارے سمندروں کے صحت مند مستقبل کے لیے بہت اہم ہے۔
جدید ٹیکنالوجی اور سمندری تحقیق: رازوں کی نقاب کشائی
سمندر کتنا پراسرار ہے، ہے نا؟ مجھے ہمیشہ سے سمندر کی گہرائیوں میں چھپے رازوں کو جاننے کی خواہش رہی ہے۔ اور مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ آج کی جدید ٹیکنالوجیز کی بدولت ہم ان رازوں کو بے نقاب کر رہے ہیں۔ بغیر پائلٹ کے زیر آب گاڑیاں (AUVs)، ریموٹ آپریٹڈ گاڑیاں (ROVs) اور سیٹلائٹ ٹیکنالوجی جیسی چیزوں نے سمندری تحقیق کے میدان میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ مجھے یاد ہے جب میں نے پہلی بار ایک ROV کو سمندر کی تہہ میں کام کرتے دیکھا تو میں حیران رہ گیا کہ انسان کس قدر ترقی کر چکا ہے۔ یہ مشینیں ان جگہوں تک پہنچ سکتی ہیں جہاں انسان کا جانا ممکن نہیں، اور وہاں سے ڈیٹا اکٹھا کرتی ہیں جو ہمارے سیارے کے بارے میں ہماری سمجھ کو بڑھاتا ہے۔
زیر آب روبوٹس اور ڈیٹا اکٹھا کرنا
یہ زیر آب روبوٹس نہ صرف سمندر کی گہرائیوں کی تصاویر اور ویڈیوز لیتے ہیں بلکہ درجہ حرارت، نمکیات اور سمندری حیات کے بارے میں بھی قیمتی معلومات اکٹھا کرتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک طرح سے سمندر کی اپنی آنکھیں اور کان ہیں۔ ان روبوٹس کی مدد سے سائنسدان سمندری ماحولیاتی نظام کی صحت کا اندازہ لگا سکتے ہیں، آبی آلودگی کا پتہ لگا سکتے ہیں اور سمندر کے اندر ہونے والی تبدیلیوں کو سمجھ سکتے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی سمندری طوفانوں کی پیش گوئی، سونامی کی وارننگ اور سمندری وسائل کی تلاش میں بھی بہت مفید ثابت ہو رہی ہے۔ میں خود اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ جتنا زیادہ ہم سمندر کو جانیں گے، اتنا ہی بہتر طریقے سے ہم اس کی حفاظت کر سکیں گے۔
سیٹلائٹ اور ریموٹ سینسنگ
زمین پر بیٹھے ہوئے بھی ہم سمندر کی وسیع و عریض وسعتوں کا مشاہدہ کر سکتے ہیں، اور یہ سب سیٹلائٹ اور ریموٹ سینسنگ ٹیکنالوجی کی بدولت ممکن ہے۔ مجھے یہ جان کر ہمیشہ حیرت ہوتی ہے کہ کیسے سیٹلائٹ سمندر کی سطح کے درجہ حرارت، رنگ، لہروں کی اونچائی اور سمندری برف کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں۔ یہ ڈیٹا سائنسدانوں کو سمندر میں ہونے والی بڑی تبدیلیوں، جیسے کہ ال نینو (El Niño) یا سمندری آلودگی کے پھیلاؤ کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ یہ خاص طور پر اس بات کا پتہ لگانے میں مددگار ہے کہ ماہی گیری کی کشتیوں کا کہاں زیادہ ہجوم ہے، یا تیل کا رساؤ کہاں ہوا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی ہمیں ایک وسیع تناظر فراہم کرتی ہے جو زمینی مشاہدات سے ممکن نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا ٹول ہے جو ہمارے سیارے کے صحت مند مستقبل کے لیے ناگزیر ہے۔
سمندری آلودگی کا مقابلہ: صاف سمندر، روشن مستقبل
جب بھی میں ساحل پر جاتا ہوں اور پلاسٹک کی بوتلیں یا کچرا سمندر میں تیرتا دیکھتا ہوں، میرا دل بہت دکھتا ہے۔ مجھے یہ سوچ کر بہت تکلیف ہوتی ہے کہ ہم اپنے ہی ہاتھوں سے اس خوبصورت ماحولیاتی نظام کو کتنا نقصان پہنچا رہے ہیں۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ اب جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ہم سمندری آلودگی کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ سچ کہوں تو، مجھے یہ دیکھ کر بہت امید ملتی ہے کہ دنیا بھر میں لوگ اور تنظیمیں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کمر بستہ ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ہم سب مل کر کوشش کریں تو ہم اپنے سمندروں کو صاف ستھرا رکھ سکتے ہیں اور آنے والی نسلوں کے لیے انہیں محفوظ بنا سکتے ہیں۔
پلاسٹک کی صفائی اور بایوڈیگریڈیبل مواد
سمندر میں پلاسٹک کی آلودگی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ پلاسٹک سینکڑوں سال تک سمندر میں رہتا ہے اور سمندری حیات کو شدید نقصان پہنچاتا ہے۔ میرے علم میں آیا ہے کہ اب ایسے جدید آلات اور روبوٹس بنائے گئے ہیں جو سمندر سے پلاسٹک کچرا اکٹھا کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، بایوڈیگریڈیبل (Biodegradable) پلاسٹک اور دیگر مواد کی تیاری پر بھی بہت زیادہ زور دیا جا رہا ہے جو قدرتی طور پر تحلیل ہو جاتے ہیں اور ماحول کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ دونوں ہی حل بہت اہم ہیں؛ ایک طرف ہم موجودہ کچرے کو صاف کر رہے ہیں اور دوسری طرف مستقبل میں مزید کچرا پیدا ہونے سے روک رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا کام ہے جس کی کامیابی ہم سب کی کوششوں پر منحصر ہے۔
تیل کے رساؤ کی نگرانی اور صفائی
تیل کا رساؤ سمندری ماحولیاتی نظام کے لیے ایک تباہ کن چیز ہے۔ مجھے ہمیشہ ان حادثات کی خبریں پڑھ کر تشویش ہوتی ہے جہاں لاکھوں گیلن تیل سمندر میں بہہ جاتا ہے۔ لیکن اب سیٹلائٹ اور ڈرونز کی مدد سے تیل کے رساؤ کی فوری نگرانی کی جا سکتی ہے اور اس کے پھیلاؤ کو روکا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، تیل کی صفائی کے لیے بھی نئی ٹیکنالوجیز، جیسے کہ تیل کو جذب کرنے والے مواد (Sorbents) اور تیل کو توڑنے والے بیکٹیریا (Bioremediation) کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ طریقے ماحولیاتی نقصان کو کم کرنے میں بہت مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ جتنی جلدی ہم ایسے حادثات پر قابو پائیں گے، اتنا ہی سمندر کو ہونے والے نقصان سے بچا سکیں گے۔
بلو اکانومی: سمندر سے معاشی انقلاب
کیا آپ نے کبھی بلو اکانومی (Blue Economy) کے بارے میں سنا ہے؟ مجھے یہ تصور بہت پسند ہے کیونکہ یہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہم سمندر سے صرف وسائل ہی نہیں نکالتے بلکہ اسے اپنی معیشت کا ایک پائیدار حصہ بھی بنا سکتے ہیں۔ میری نظر میں، بلو اکانومی کا مطلب ہے سمندری وسائل کا ذمہ دارانہ استعمال کرتے ہوئے معاشی ترقی حاصل کرنا۔ اس میں ماہی گیری، آبی زراعت، سمندری سیاحت، بندرگاہیں، جہاز رانی، سمندری توانائی اور سمندری تحقیق شامل ہیں۔ یہ سب کچھ اس طرح سے کرنا ہے کہ سمندر کا ماحول بھی محفوظ رہے اور ہماری آنے والی نسلیں بھی ان وسائل سے فائدہ اٹھا سکیں۔
بلو اکانومی کے اہم شعبے اور ان کا مستقبل
بلو اکانومی میں کئی شعبے شامل ہیں جو پاکستان جیسے ممالک کے لیے بھی بہت اہم ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، سمندری سیاحت جو ساحلی علاقوں میں روزگار کے مواقع پیدا کرتی ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ دنیا بھر میں ساحلی سیاحت کتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اس سے مقامی معیشت کو کتنا فائدہ ہوتا ہے۔ اسی طرح، پائیدار ماہی گیری اور آبی زراعت بھی خوراک کی حفاظت اور برآمدات کو بڑھا سکتی ہے۔ سمندری توانائی کے منصوبے ہمیں صاف بجلی فراہم کر سکتے ہیں۔ یہ تمام شعبے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کی ترقی سمندری وسائل پر ہماری انحصار کو ایک پائیدار شکل دیتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ مستقبل میں بلو اکانومی مزید اہمیت اختیار کرے گی۔
پائیدار ترقی کے اہداف اور سمندر
اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف (Sustainable Development Goals) میں بھی سمندری وسائل کی حفاظت کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ دنیا بھر میں اس پر سنجیدگی سے کام ہو رہا ہے۔ سمندروں کی آلودگی کو کم کرنا، ماہی گیری کے پائیدار طریقوں کو فروغ دینا، اور سمندری ماحولیاتی نظام کو محفوظ رکھنا ان اہداف میں شامل ہے۔ یہ تمام اہداف سمندری وسائل کی ترقی کی ٹیکنالوجی کے ساتھ گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ اگر ہم ان اہداف کو حاصل کر لیں تو نہ صرف سمندر بلکہ پورا سیارہ ایک بہتر جگہ بن جائے گا۔ یہ ایک اجتماعی کوشش ہے جس میں ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہے۔
سمندری پانی کا میٹھا کرنا: پینے کے پانی کا حل
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ہماری زمین کا 70 فیصد حصہ پانی ہے لیکن پینے کا صاف پانی صرف ایک چھوٹا سا فیصد ہے؟ مجھے تو یہ سوچ کر ہی حیرت ہوتی ہے کہ سمندر کا اتنا سارا پانی ہمارے سامنے ہے لیکن ہم اسے پی نہیں سکتے۔ لیکن اب جدید ٹیکنالوجیز کی بدولت ہم سمندری پانی کو میٹھا کر سکتے ہیں اور اسے پینے کے قابل بنا سکتے ہیں۔ یہ خاص طور پر ان علاقوں کے لیے ایک بہت بڑا حل ہے جہاں پینے کے پانی کی شدید کمی ہے۔ مجھے یاد ہے جب میں نے ایک بار مشرق وسطیٰ کے ایک ملک میں میٹھے پانی کے پلانٹ کا دورہ کیا تھا، اور یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ سمندری پانی کو کس طرح فلٹر اور صاف کر کے پینے کے قابل بنایا جا رہا ہے۔
ریورس اوسموسس (Reverse Osmosis) ٹیکنالوجی
سمندری پانی کو میٹھا کرنے کی سب سے عام اور موثر ٹیکنالوجی ریورس اوسموسس (RO) ہے۔ میں نے اس ٹیکنالوجی پر بہت تحقیق کی ہے۔ اس میں سمندری پانی کو بہت زیادہ دباؤ کے ساتھ ایک نیم پارگمی جھلی (Semi-permeable Membrane) سے گزارا جاتا ہے جو نمکیات اور دیگر آلودگیوں کو روک لیتی ہے اور صاف پانی کو گزرنے دیتی ہے۔ یہ طریقہ کار بہت موثر ہے اور دنیا بھر کے کئی ممالک میں کامیابی سے استعمال ہو رہا ہے۔ اگرچہ یہ ایک توانائی طلب عمل ہے، لیکن شمسی توانائی جیسی قابل تجدید توانائی کے ذرائع کے استعمال سے اس کے اخراجات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ میری نظر میں، یہ ٹیکنالوجی مستقبل میں پینے کے پانی کی عالمی ضروریات کو پورا کرنے میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔
ڈیسیلینیشن کے ماحول دوست حل
مجھے ہمیشہ اس بات کی فکر رہتی ہے کہ ڈیسیلینیشن پلانٹس سے نکلنے والا نمکین پانی سمندری ماحول کو کیسے متاثر کرتا ہے۔ خوش قسمتی سے، اب سائنسدان ایسے ماحول دوست حل تلاش کر رہے ہیں جو اس مسئلے کو حل کر سکیں۔ ان میں زیرو لیکویڈ ڈسچارج (ZLD) سسٹمز اور نمکین پانی کو دوبارہ استعمال کرنے کے طریقے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، قابل تجدید توانائی کا استعمال ڈیسیلینیشن پلانٹس کو چلانے کے لیے ایک بہترین آپشن ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم تکنیکی ترقی کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی ذمہ داری کا بھی خیال رکھ سکتے ہیں اور رکھنا بھی چاہیے۔ اس طرح، ہم نہ صرف پینے کے پانی کا مسئلہ حل کر سکیں گے بلکہ اپنے سمندری ماحول کو بھی محفوظ رکھ پائیں گے۔
| ٹیکنالوجی کا شعبہ | اہم استعمال | اہمیت |
|---|---|---|
| سمندری توانائی | لہروں، دھاروں، درجہ حرارت کے فرق سے بجلی کی پیداوار | صاف اور پائیدار توانائی کا ذریعہ |
| گہرے سمندر کی کان کنی | قیمتی معدنیات (تانبا، نکل، کوبالٹ) کا اخراج | زمینی ذخائر کے متبادل، صنعتی ضروریات کی تکمیل |
| آبی زراعت | مچھلی، جھینگے اور سمندری سبزیوں کی پائیدار افزائش | خوراک کی حفاظت، جنگلی آبادی پر دباؤ میں کمی |
| سمندری روبوٹکس | زیر آب تحقیق، ڈیٹا اکٹھا کرنا، آلودگی کی نگرانی | سمندری رازوں کو بے نقاب کرنا، ماحولیاتی نگرانی |
| ڈیسیلینیشن | سمندری پانی کو پینے کے قابل بنانا | پینے کے پانی کی کمی کا حل، خشک علاقوں کے لیے اہم |
بلو ٹیکنالوجی: سمندر کا دفاع اور حفاظت
میں ہمیشہ سوچتا تھا کہ سمندر صرف وسائل کا ایک ذریعہ ہے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مجھے احساس ہوا کہ یہ ہماری بقا کے لیے کتنا اہم ہے۔ اب “بلو ٹیکنالوجی” کا تصور تیزی سے ابھر رہا ہے، جس میں ہم نہ صرف سمندر سے فائدہ اٹھاتے ہیں بلکہ اس کی حفاظت کے لیے بھی جدید طریقے استعمال کرتے ہیں۔ مجھے یہ چیز بہت متاثر کرتی ہے کہ کیسے سائنس اور ٹیکنالوجی کو ماحولیاتی تحفظ کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جو سمندر کے ماحول کو بہتر بنانے، آلودگی سے بچانے اور سمندری حیات کو محفوظ رکھنے پر توجہ دیتا ہے۔
سمندری ماحولیاتی نظام کی بحالی
دنیا بھر میں سمندری ماحولیاتی نظام، جیسے کہ مرجان کی چٹانیں (Coral Reefs) اور مینگرووز (Mangroves)، شدید خطرات سے دوچار ہیں۔ میرے علم میں آیا ہے کہ بلو ٹیکنالوجی ان ماحولیاتی نظاموں کی بحالی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ مثال کے طور پر، مصنوعی چٹانیں بنانا یا مینگرووز کے پودے لگانا۔ مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ سائنسدان جینیاتی انجینئرنگ کا استعمال کرتے ہوئے ایسی مرجان کی اقسام تیار کر رہے ہیں جو ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف زیادہ مزاحمت رکھتی ہیں۔ یہ کوششیں نہ صرف سمندری حیات کو تحفظ فراہم کرتی ہیں بلکہ ساحلی علاقوں کو سمندری طوفانوں اور کٹاؤ سے بھی بچاتی ہیں۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جس کے نتائج دیکھ کر مجھے حقیقی خوشی محسوس ہوتی ہے۔
سمندری نگرانی اور تحفظ کے اوزار
سمندر کی حفاظت کے لیے جدید نگرانی کے اوزار بہت ضروری ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ کس طرح سیٹلائٹ، ڈرونز اور زیر آب سینسرز سمندر میں ہونے والی غیر قانونی سرگرمیوں، جیسے کہ غیر قانونی ماہی گیری یا آلودگی پھیلانے والوں کا پتہ لگاتے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجیز حکام کو فوری کارروائی کرنے میں مدد دیتی ہیں اور سمندری قوانین کو نافذ کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر یہ چیز بہت تسلی بخش لگتی ہے کہ اب ٹیکنالوجی کی مدد سے ہم اپنے سمندروں کو ان لوگوں سے بچا سکتے ہیں جو انہیں نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ یہ ایک ایسا دفاعی نظام ہے جو ہمارے سمندری ورثے کو محفوظ رکھنے کے لیے ناگزیر ہے۔
글을마치며
تو دوستو، جیسا کہ ہم نے دیکھا، سمندر صرف پانی کا ایک وسیع ذخیرہ نہیں بلکہ ٹیکنالوجی اور انسانی ذہانت کے ذریعے پائیدار مستقبل کی چابیاں بھی رکھتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس بلاگ پوسٹ نے آپ کو سمندر کی گہرائیوں میں چھپی ٹیکنالوجیز اور ان کی اہمیت کے بارے میں کچھ نیا سیکھنے کا موقع دیا ہوگا۔ آئیے، ہم سب مل کر اپنے سمندروں کی حفاظت کریں تاکہ وہ ہماری اور آنے والی نسلوں کی ضروریات کو پورا کرتے رہیں۔ یہ ہمارے سیارے کے صحت مند مستقبل کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
알아두면 쓸모 있는 정보
1. پلاسٹک کا استعمال کم کریں اور ری سائیکلنگ کو فروغ دیں تاکہ سمندر میں کچرے کی مقدار کم ہو۔
2. مقامی سطح پر سمندری تحفظ کی مہمات میں حصہ لیں یا ان کی حمایت کریں تاکہ تبدیلی کا حصہ بنیں۔
3. پائیدار ماہی گیری کے نشان والے مصنوعات خریدیں تاکہ سمندری حیات کے غیر ذمہ دارانہ شکار کو روکا جا سکے۔
4. توانائی بچانے والے آلات استعمال کریں تاکہ کاربن کے اخراج کو کم کیا جا سکے اور سمندری درجہ حرارت میں اضافے کو روکا جا سکے۔
5. سمندری تحقیق کے بارے میں مزید جاننے کے لیے دستاویزی فلمیں دیکھیں اور کتابیں پڑھیں تاکہ آپ کی معلومات میں اضافہ ہو۔
중요 사항 정리
اس پوسٹ میں ہم نے دیکھا کہ سمندر ہماری توانائی، معدنیات، خوراک اور پانی کی ضروریات پوری کر سکتا ہے، بشرطیکہ ہم جدید ٹیکنالوجی کو پائیداری کے ساتھ استعمال کریں۔ سمندری توانائی، گہرے سمندر کی کان کنی، آبی زراعت، زیر آب روبوٹس، ڈیسیلینیشن، اور بلو ٹیکنالوجی جیسے شعبے سمندر کے وسیع امکانات کو ظاہر کرتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ہمیں ان تمام سرگرمیوں کو ماحول دوست طریقے سے انجام دینا ہے تاکہ سمندری ماحولیاتی نظام محفوظ رہے اور آنے والی نسلوں کے لیے بھی سمندر ایک قیمتی اثاثہ بنا رہے۔
اکثر پوچھے گئے سوالات (FAQ) 📖
س: سمندر سے توانائی حاصل کرنے کے کون کون سے جدید طریقے ہیں جو آج کل زیرِ بحث ہیں اور ان سے کیا توقعات وابستہ ہیں؟
ج: جی! سمندر سے توانائی حاصل کرنے کے کئی دلچسپ اور جدید طریقے ہیں جن پر پوری دنیا میں کام ہو رہا ہے۔ مجھے خود یہ جان کر بڑی حیرت ہوتی ہے کہ قدرت نے کتنی طاقت اپنے اندر چھپا رکھی ہے۔ سب سے پہلے تو لہروں کی توانائی ہے جسے ‘Wave Energy’ کہتے ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہے جیسے سمندر کی اٹھتی گرتی لہروں سے بجلی پیدا کی جائے!
سکاٹ لینڈ میں تو ایک بہت بڑا ویو فارم بھی بن چکا ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ کوئی خواب نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے۔ پھر ایک اور طریقہ ہے ‘Tidal Energy’ یعنی مدوجزر کی طاقت۔ یہ طریقہ سمندر میں چاند کی کشش سے ہونے والی پانی کی نقل و حرکت کا فائدہ اٹھاتا ہے اور اس سے بجلی بناتا ہے۔ یہ دونوں طریقے واقعی قابلِ اعتبار اور ماحول دوست ہیں۔ایک اور بہت ہی جدید طریقہ ‘Ocean Thermal Energy Conversion’ (OTEC) کہلاتا ہے۔ اس میں سمندر کی اوپری سطح اور گہرائی کے درجہ حرارت کے فرق کو استعمال کر کے بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ سوچیں، کتنی زبردست بات ہے!
یہ طریقے نہ صرف ہمیں صاف توانائی دیتے ہیں بلکہ کاربن کے اخراج کو بھی کم کرتے ہیں، جو ہمارے سیارے کے لیے بہت ضروری ہے۔ میرے خیال میں یہ مستقبل کی توانائی کا ایک بڑا ذریعہ بن سکتے ہیں، خاص طور پر ان علاقوں کے لیے جہاں سمندر قریب ہیں۔ مجھے امید ہے کہ جیسے جیسے ٹیکنالوجی مزید بہتر ہوگی، ہم ان طریقوں سے اور بھی زیادہ فائدہ اٹھا پائیں گے۔
س: سمندری وسائل کی ترقی سے ہمیں کیا فوائد حاصل ہو سکتے ہیں اور اس راہ میں کیا رکاوٹیں ہیں؟
ج: سمندری وسائل کی ترقی سے بے پناہ فوائد حاصل ہو سکتے ہیں، یہ تو میں نے خود بھی اپنی تحقیق اور تجربات سے دیکھا ہے۔ سب سے بڑا فائدہ تو خوراک کا ہے؛ مچھلی اور دیگر سمندری حیات ہماری آبادی کے لیے پروٹین کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔ پھر توانائی کے بارے میں تو ہم نے ابھی بات کی، یہ ایک صاف اور لامحدود ذریعہ ہے۔ سمندر سے ہمیں قیمتی معدنیات اور ادویات بھی ملتی ہیں جو ہماری معیشت کو سہارا دیتی ہیں اور نئی صنعتیں پیدا کرتی ہیں۔ اس سے روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں، چاہے وہ ماہی گیری ہو، شپنگ ہو یا سمندری تحقیق۔ مجھے تو لگتا ہے کہ اگر ہم ان وسائل کو صحیح طرح استعمال کریں تو یہ ہماری تقدیر بدل سکتے ہیں۔لیکن دوستو، ہر سنہری موقع کے ساتھ کچھ چیلنجز بھی آتے ہیں اور سمندری وسائل کی ترقی میں بھی ایسا ہی ہے۔ سب سے بڑی رکاوٹ ماحولیاتی اثرات ہیں۔ اگر ہم بے احتیاطی سے وسائل کا استعمال کریں گے تو سمندری حیات کو نقصان پہنچ سکتا ہے، آلودگی بڑھ سکتی ہے اور پورا سمندری ایکو سسٹم تباہ ہو سکتا ہے۔ مجھے تو جب بھی یہ خیال آتا ہے تو بہت افسوس ہوتا ہے۔ دوسرا بڑا مسئلہ بہت زیادہ لاگت کا ہے، خاص طور پر گہرے سمندر کی ٹیکنالوجیز میں بھاری سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ تکنیکی چیلنجز بھی ہیں، جیسے گہرے سمندر میں آلات کی دیکھ بھال اور انہیں مسلسل بہتر بنانا۔ اس کے علاوہ، بین الاقوامی تعاون بھی ضروری ہے کیونکہ سمندر کسی ایک ملک کی ملکیت نہیں، یہ ایک عالمی ورثہ ہے۔ مجھے امید ہے کہ دنیا ان چیلنجز کو سمجھتے ہوئے ایک ذمہ دارانہ راستہ اپنائے گی۔
س: ہم سمندری وسائل کو پائیدار طریقے سے کیسے استعمال کر سکتے ہیں تاکہ آنے والی نسلیں بھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں؟
ج: یہ بہت اہم سوال ہے اور میرے دل کے بہت قریب ہے۔ پائیدار استعمال کا مطلب ہے کہ ہم آج تو وسائل استعمال کریں لیکن انہیں آنے والی نسلوں کے لیے بھی محفوظ رکھیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کس طرح کچھ لوگ وسائل کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں، اور یہ دیکھ کر مجھے بہت دکھ ہوتا ہے۔ سب سے پہلے تو ہمیں سمندری آلودگی کو کم کرنا ہوگا۔ پلاسٹک اور صنعتی فضلہ سمندر میں پھینکنا بند کرنا ہوگا، کیونکہ یہ سمندری حیات کے لیے زہر ہے۔ دوسرا، ماہی گیری کے پائیدار طریقوں کو اپنانا بہت ضروری ہے، یعنی اتنی مچھلیاں پکڑیں جتنی سمندر خود پیدا کر سکے۔ بہت زیادہ شکار سے بچنا ہوگا اور چھوٹی مچھلیوں کو بڑھنے کا موقع دینا ہوگا۔اس کے علاوہ، ہمیں سمندری محفوظ علاقے (Marine Protected Areas) بنانے ہوں گے جہاں سمندری حیات آزادی سے رہ سکے اور پروان چڑھ سکے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہیں جیسے زمین پر جنگلی حیات کے لیے نیشنل پارکس بناتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ تعلیم اور بیداری بھی بہت اہم ہیں۔ لوگوں کو سمندر کی اہمیت اور اس کے تحفظ کی ضرورت کے بارے میں آگاہ کرنا چاہیے۔ بین الاقوامی سطح پر بھی تعاون کو بڑھانا چاہیے تاکہ سمندری قوانین پر عمل کیا جا سکے اور سب مل کر اس عظیم ورثے کی حفاظت کریں۔ چین جیسے ممالک کا ترقی پذیر ممالک کے ساتھ گہرے سمندر کی ٹیکنالوجیز کو شیئر کرنا ایک بہت اچھی مثال ہے کہ ہم کیسے مل کر اس مقصد کو حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر ہم سب ذمہ داری کا مظاہرہ کریں تو ہمارے سمندر ہمیشہ ہمیں خوشی اور وسائل فراہم کرتے رہیں گے۔






